برق نے جب بھی آنکھ کھولی ہے
آشیانوں نے خاک رولی ہے
یاد کا کیا ہے آگئی پھر سے
آنکھ کا کیا ہے پھر سے رولی ہے
دل کی باتوں کو دل سمجھتا ہے
دل کی بولی عجیب بولی ہے
پردہ اٹھتے ہی میری نظروں سے
کائنات یقین ڈولی ہے
تم مصلی بچھا لو چاہت کا
ہم نےدہلیز دل کی دھولی ہے
چشم یاراں ہے مصر کا بازاز
لگ رہی میرے دل کی بولی ہے
اک طرف امن کے ہیں متوالے
اک طرف مفسدوں کی ٹولی ہے
دل کی کھیتی ہے اشک سے سیراب
ہم نے یادوں کی فصل بولی ہے
مسکرائے نہ چاند کیوں مفتیؔ
آئی جو چاندنی کی ڈولی ہے