دل کی دہلیز پر عشق کو بٹھا رکھتے ہیں
آنکھوں میں اک صورت بنا رکھتے ہیں
جانے کب آ جائے الفت کا پیغام
دریچے پھولوں سے سجا رکھتے ہیں
نہیں ہے جرم کسی سے محبت کرنا
اپنے رویوں میں پیار بسا رکھتے ہیں
لے آتا ہے طوفان ساحل پر ان کو
جو سفینے بادبانوں میں ہوا رکھتے ہیں
ہے ہمارا مزاج ذرہ عاشقانہ سا
ہم طبیعت تھوڑی سی جدا رکھتے ہیں