دل کے دریا میں اترنا چاہیئے
نام تیرا لے کے مرنا چاہئے
موسم گل آئے گا اب اس طرح
بادشاہ کا تخت گرنا چاہیئے
تیری آمد کا سنا ہے باغ میں
اب تو پھولوں کو بکھرنا چاہیئے
حسن پہ مغرور ہونا ہی بجا
کچھ خدا سے بھی تو ڈرنا چاہیئے
یہ جنازہ ہے تیرے بیمار کا
تیرے کوچے سے گزرنا چاہیئے
ہمکو سارے شہر نے لوٹا زبیر
کس پہ یہ الزام دھرنا چاہیئے