ہر کسی کو دل کے زخم دکھایا نہ کرو
مگر اس دوست سے کچھ چھپایا نہ کرو
پلکوں کے پیچھے آنسو چھپایا نہ کرو
یوں ہمارے دل میں درد جگایا نہ کرو
دشمنوں کے طعنے تو سہہ سکتے ہیں
تم ہم پہ الفاظ کے تیر چلایا نہ کرو
تم چلے جاتے ہو تو مجھے نیند آتی
ہو سکے تو میرے خوابوں میں آیا نہ کرو
سنا ہے غم باٹننے سے کم ہوتا ہے
ہمیں بھی کبھی حال دل سنایا کرو
جو لوگ وفا کے معنی نہ جانیں
ایسے کم ظرفوں کو جام وفا پلایا نہ کرو
مقدر پر کسی کا زور نہیں ہے
جو مل جائے خوشی خوشی جھولی پایا کرو