اٹھ کہ جشن بہاراں کا زمانہ ہی نہ ہو
ممکن ہے کہ پھر اپنا جانا ہی نہ ہو
آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا بھری بزم میں ہمیں
شائد ہمیں انھوں نے پہچانا ہی نہ ہو
جھوٹے وعدے جھوٹی قسمیں جھوٹے دعوے جھوٹا پیار
ایماں والوں کو شائد ایماں بچانا ہی نہ ہو
یہ سوچ کر تیری آنکھ کہ سب اشک پی گئے
دربار حسن کی مئے کا پیمانہ ہی نہ ہو
ہر آزمائش سے پہلے پیار ثابت تھا اپناتو
وہ بولے آزمائیں کیوں گر آزمانا ہی نہ ہو
بازو پکڑ کر لئے جاتے ہیں قتل گاہ کو
اس دل فریب کا وہ کہیں ٹھکانا ہی نہ ہو
دل کے چاک ہم نے سی لئے ہیں عیاز
در کھولیں کیوں جب کسی کو آنا ہی نہ ہو