(71)
کیسے کہوں کہ سانس سے زندہ ہوں
جب کہ سانس سے پہلے تیری یاد آتی ہے
(72)
وہ نہ آۓ گا ہمھیں معلوم تھا اِس شام بھی
انتظار اُس کا مگر کچھ سوچ کر کرتے ہیں
(73)
نہ جانے کون سی آنکھیں وہ خواب دیکھیں گی
وہ ایک خواب کہ ہم جس کے انتظار میں ہیں
(74)
دنیا میں اِس کا کوئی خریدار ہی نہیں
میں بچتا ضرور جو بکتا میرا نصیب
(75)
اِس انتظار سے ہم بھی گُزر چُکے اب تو
جس انتظار انسان مر بھی جاتا ہے
(76)
میں چاہتا تھا روح اُسے سونپ دوں مگر
اس آدمی کی صرف بدن نگاہ تھی
(77)
شبِ غربت کی ہوا تیز بہت ہے مسعود
اب ہمھیں آنکھ کے اندر ہی دیا رَکھنا ہے
(78)
رات کیا رات تھی جنت کا گماں تھا جیسے
دو دل جواں تھے دونوں ہی تھے پیاسے
(79)
تاروں کی ضیا دل میں ایک آگ لگاتی ہے
آرام سے راتوں کو سوتے نہیں سودائ
(80)
دُکھ یہ نہیں ہے کہ کوئی اپنا نہیں مسعود
دُکھ تو ہے کسی نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا