دو پلوں کی ملاقات پھر ہجر کے سال رہے
ترے آنے سے پہلے ترے جانے کے بعد بے حال رہے
سوچا تھا ملو گے تو پوچھے گے دل میں ہے جو
وقت کی قلت کے سبب دل میں ہی تمام سوال رہے
کرتے رہے تلاش تجدے مشرق سے مغرب
تری آرزو میں پھرتے جنوب سے شمال رہے
کرتے ہو بیان ہمیشہ تم شعروشاعری میں غم اپنا
لکھو وہ بھی جو نہال پے غموں کے جنجال رہے