دو ہاتھ قلم پھر سے لکھنے دو نظم پھر سے مقتل میں وہ کہتے ہیں اب لینا جنم پھر سے یاد آیا ہے گزرہ ستم کھلنے کو زخم پھر سے ہے کون جو رکھے دوست زخموں پہ مرہم پھر سے اے کاش وہ کر جائیں پہلے سا کرم پھر سے ہیں موج کی یوں موجیں سرہو گا قلم پھر سے