دل کسی سورت سدھرنے کا نام نہیں لیتا
جہاں دوام کی ضرورت ھے واں دوام نہیں لیتا
اپنی بس سے باہر کا ہر کام کرتا ھے
حد سے تجاوز کرتا ھے اختتام نہیں لیتا
ایک اکیلا تن تنہا زمانے سے لڑتا ھے
اور پھر کہتا ھے کہ کوئی انتقام نہیں لیتا
دور حاجر میں فاقہ مستی رنگ لاوے کہاں؟
کہ درد کے مارے مر رہا ھے مگر بام نہیں لیتا
زھر اذا اسد حق برابر شراب طہورا سہی
شب و روز اور کوئی میں ہنوز جام نہیں لیتا