دور جا بسا اور رولایا بہت ہے
تنہا مجھے تو نے ستایا بہت ہے
شکوہ نہ کروں کیوں تیری محبت سے
بچھڑ کر تو نے دل دُکھایا بہت ہے
نام تیرا محفل میں کیا یاد میں نے اور
تنہائی میں تُو یاد آیا بہت ہے
وصل کی تھی خوشی کبھی انتظار کی
جدائی کا غم آج پایا بہت ہے
تجھے تو دور سے سنایا نہ قصہِ غم
حال خود کو اپنا سنایا بہت ہے
ساجد اُسے کہو زمانے سے پوچھ لے
میں نے سب کو دامن دیکھایا بہت ہے