ہر بلا زمانے کی راستوں سے ٹل جائے
دوستی اگر اپنی چاہتوں میں ڈھل جائے
خوابگیں جھروکوں سے جھانک کر مجھے دیکھو
کچھ زرا زمانے کی سوچ ہی بدل جائے
حسن کی نزاکت پر پھول ہی نازاں
تم کو سامنے پا کر آئینہ مچل جائے
بادلوں کے سینے میں وحشتیں سی طاری ہیں
چاند سے ذرا کہہ دو دو گھڑی سنبھل جائے
جگنوؤں کو مٹھی میں دیکھنا بھلا ۔ لیکن
جگنوؤں کی حدت سے ہاتھ ہی نہ جل جائے
یونہی باتوں باتوں میں ذکر چھڑ گیا تیرا
حرف تو حرف ٹھہرے ۔ دل نکل نکل جائے