چنے ہیں ہم نے سب رنگ وفا کے دامن تیرا سجانے کو
دیکھ تو مڑ کے ایک نظر تو آ رہا ہوں منانے کو
کچھ بہا دیا ہے طوفانوں میں کچھ آندھیاں ساتھ لے اڑیں
کیوں آگ لے کر تم آئے ہو، اب کیا بچا ہے جلانے کو
کہا چادر دیکھ کے پاؤں پھیلا، سو پاؤں ہی اپنے کاٹ دئیے
چادر سنبھالو تم اپنی یہاں کچھ نہیں اب پھیلانے کو
ملا حکم جب چلنے کو، بے سروساماں ہی ہم چل دئیے
شہر چھوٹا چھوٹ گیا، آباد کریں اب ویرانے کو
کہا دل کی لگی اچھی نہیں، میری مان لے تو لوٹ آ
کیا ہی پاگل شخص ہے یہ، سمجھا رہا ہے دیوانے کو
کیا ضد تھی اس ستم گر کی، کہ رو کے تو دکھا دے مجھ کو
جو رو پڑے تو سب خون نکلا، آنسو نہیں تھے بہانے کو
زلفی سا سوداگر بھی کبھی، دیکھا ہے تم نے یہاں پہ کوئی
دونوں جہاں لٹا بیٹھا بس ایک شخص کے پانے کو