دکھ میں اپنی ذات سنائی دیتی ہے
اندر کی ہر بات سنائی دیتی ہے
جانے کیا آزار ہے میرے سینے میں
ایک صدا دن رات سنائی دیتی ہے
چپ چپ سی ان بھیگی آنکھوں میں اب تک
برہا کی برسات سنائی دیتی ہے
پچھلے پہر اٹھ کر سنیے اس کی سرگم
اور ہی دھن میں رات سنائی دیتی ہے
میں اس کی آواز کے رخ پر بیٹھا ہوں
جس کو میری ہر بات سنائی دیتی ہے