دھوپ تھی صحرا کا سفر بھی تھا
راہرو رہ سے بے خبر بھی تھا
مجھ کو ویران کر دیا اس نے
مجھ میں آباد اک نگر بھی تھا
سایہ دیتا تھا جو شجر سب کو
ان بہاروں میں بے ثمر بھی تھا
ہجر کی شب بھی جان لیوا تھا
مجھ سے روٹھا ہوا قمر بھی تھا
کیسے کرتے چراغِ دل روشن
وہ جنھیں آندھیوں کا ڈر بھی تھا
اب وہ مجھ سے گریز کرتے ہیں
میں کبھی انکا ہمسفر بھی تھا