دھوپ تھی صحرا کا سفر بھی تھا

Poet: عمیر قریشی By: عمیر قریشی, اسلام آباد

دھوپ تھی صحرا کا سفر بھی تھا
راہرو رہ سے بے خبر بھی تھا

مجھ کو ویران کر دیا اس نے
مجھ میں آباد اک نگر بھی تھا

سایہ دیتا تھا جو شجر سب کو
ان بہاروں میں بے ثمر بھی تھا

ہجر کی شب بھی جان لیوا تھا
مجھ سے روٹھا ہوا قمر بھی تھا

کیسے کرتے چراغِ دل روشن
وہ جنھیں آندھیوں کا ڈر بھی تھا

اب وہ مجھ سے گریز کرتے ہیں
میں کبھی انکا ہمسفر بھی تھا

Rate it:
Views: 476
25 May, 2015
More Love / Romantic Poetry