کیا بتائیں اس کے بن ایسی جاں نہیں کوئی
دھڑکنیں تو زندہ ہیں درمیاں نہیں کوئی
میں اسے سمجھنے کے مرحلوں میں الجھی تھی
اس نے جانے کیا کیسے یہ کہاں نہیں کوئی
نیند کیوں نہیں آتی خواب خواب آنکھوں کو
شہر جاں میں ہر جانب یہ جہاں نہیں کوئی
نیند مانگتے پھرنے میں انا کا سودا تھا
اس انا میں خوابوں کی کہکشاں نہیں کوئی
ہونٹ تیرے پھولوں سے بات تیری خوشبو سی
روپ چاند سا تیرا دل آسماں نہیں کوئی
زعم اور انا کا ہم اور کیا گلا گھوٹیں
اس کا ہر کہا مانا مگر گماں نہیں کوئی
اس کے چھوڑ جانے پر کچھ نہ کچھ تو کرنا تھا
کچھ نہ کر سکے وشمہ مہرباں نہیں کوئی