دہ وقت کا اشارہ تھا
میں موج وہ کنارہ تھا
بچھڑا تو پل بھر میں تھا
پھر صدیوں نے پکارا تھا
ہجر کی کالی راتوں میں
وہ جگنو تھا ستارہ تھا
میں حسن عشق کا سوداگر
وہ سارے جگ میں پیارا تھا
وہ غم کے ترانے چھوڑ گیا
دل ٹوٹا ھوا اک تارا تھا
موسم گل پھر لوٹے گا
بدلتی رتوں کا اشارہ تھا
میری ساری سخنوری میں حبیب
وہ محبت کا استعارہ تھا