دیا ہے اس نے دغا وقت آ زمائش میں
یہ ہجر غم ہی ملا وقت آزمائش میں
دیا بھلو ہی بنا اس نے تو مجھے یارو
سبھی یہ کچھ ہے ہوا وقت آزمائش میں
تھا اشتیاق سے اس کو بلایا جب میں نے
کی اس نے یار جفا وقت آزمائش میں
تھا ناز جس کی وفاؤں پہ ہم کو یار کبھی
رقیب بن ہی گیا وقت آزمائش میں
میں جانتا ہی نہیں کون ہو بتادو مجھے
یہ اس نے ہنس کے کہا وقت آزمائش میں
کروں گا یار فروکش کبھی ادھر سے ادھر
مرے نہ پاس رکا وقت آزمائش میں
کہ ساتھ زیست بھر دینے کی قسم کھائی
عدو کا ساتھ دیا وقت آزمائش میں
میں کیسے مان لوں شہزاد میرا ہے سجنا
رہا ہے پھر بھی گلہ وقت آزمائش میں