دیپ جلانے نکلا ہوں میں آگ پکڑ کر مُٹھی میں
اظہر خواب حقیقت ہو گا، جاگ پکڑ کر مُٹھی میں
ماں کی ممتا ، ماکھن پیڑا قصے سارے ماضی کے
بیٹھا ہوں سوچوں میں گُم میں ساگ پکڑ کر مُٹھی میں
لگتا ہے اب جگ میں اس کا دھیلہ ملنا مُشکل ہے
کاہے کو میں گھوموں اب بھی لاگ پکڑ کر مُٹھی میں
مُجھ کو دیوانہ مت سمجھو کُچھ کرنے پر آ جاؤں
ساون تک برسا دیتا ہوں راگ پکڑ کر مُٹھی میں
اس کی اُس کی چھت پر بیٹھے کان مرے کھا جاتے ہیں
دیواروں سے دے ماروں سب کاگ پکڑ کر مُٹھی میں
ماضی حال ملا کر ہوتا ہے تشکیل تو پھر بہتر
اپنے مُستقبل کی رکھو باگ پکڑ کر مُٹھی میں
آڑ بنے تھے، سمجھایا بھی، مان کے دینا کس نے تھا
چاند سے میں نے دور ہٹائے ناگ پکڑ کر مُٹھی میں