دے کے مجھے وہ دل اب احسان بولتا ہے
اس کے ذہن میں کیسا انسان بولتا ہے
شک و شبہ ہے مجھ کو ہواؤ ذرا بتانا
میرے علاوہ کس کو وہ جان بولتا ہے
فصلِ بہار میں تو سنتے نہیں کسی کی
رہتے نہیں ہیں گل تو گلدان بولتا ہے
مسند نشیں جو دل میں مدت سے چپ رہا ہے
کیوں آج میرے گھر کا مہمان بولتا ہے
خوشیوں کی انتہا ہے اس ماہ رو سے مل کر
آنکھوں میں خواہشوں کا سامان بولتا ہے
اس کو اٹھا کے وشمہ رکھ لوں کتاب دل میں
مجھ کو جو زندگی کا عنوان بولتا ہے