دے گیا باغباں کو ہمیشہ کا غم
پھول کھلنے سےپہلے جو مرجھا گیا
بن کے خوشبو رہا ساتھ کچھ دیر وە
پھر چمن میں خزاوٴں کو بکھرا گیا
وصل کے ایک قطرے کے بدلے مجھے
وحشتوں کے سمندر وە دکھلا گیا
وقتِ رخصت وە جب میری باہوں میں تھا
درد کی آندھیوں سے میں ٹکرا گیا
خواب ہے خواب ہے اور کچھ بھی نہیں
زندگی کی حقیقت وە بتلا گیا
اُس کے قدموں کو چومے گی خُلدِبریں
راحتیں ذندگی کی جو ٹھکرا گیا
اُس کو خوشبو لکھوں یا لکھوں پھول میں
آسمان و زمیں کو جو مہکا گیا
مجھ کو جنت ملے گی تیرےنام کی
روزِ محشر مجھے جو پکارا گیا
خلد میں بس کمی تھی اے آدم تیری
اس لیے تجھ کو شاید بلایا گیا
لے گیا ساتھ اپنے وە میرا جہاں
کب وە دنیا سے قاسم ہے تنہا گیا