ذکر نو بہار چلے

Poet: Nasir Rizvi By: uzma ahmad, Lahore

رہیں عشق رہے زندگی گزار چلے
یہ ایک قرض تھا ہم پہ جو ہم اتار چلے

طلب ہوئی تو ہم ہی لے کے نقد جاں پہنچے
کہیں رکے ہی نہیں پھر جو ایک بار چلے

نگاہ یار میں ہی جب معتبر ٹھہرے
تو شہر یار سے ہم ہو کے شرمسار چلے

قفس میں بھی جو رہے تو رہے چمن کی طرح
خزاں بھی تھی تو کئے ذکر نو بہار چلے

کچھ اور چاہا نہ ہم نے دل و نظر کے سوا
ذرا سی بات تھی قصے مگر ہزار چلے

ٹھہر سکے جو کبھی وہ تو وقت بھی ٹھہرے
نہ بار بار رکے اور نہ بار بار چلے

Rate it:
Views: 449
31 May, 2012