رات کے ہونے سے پہلے رات کیوں ہونے کو ہے
زندگی بے وقت ،بے اوقات کیوں ہونے کو ہے
سوکھا تھا جو شاخ شجر سے جھڑ گیا
خشک اب شاخ شجر پر پات کیوں ہے
دے رہے تھے ہم دلاسے ایک دوجے کو
جیت کے آثار تھے اب مات کیوں ہونے کو ہے
یہ جدائی کی گھڑی ہے مسکرا کے بات کر
تیری ہنستی آنکھوں میں برسات کیوں ہونے کو ہے
بات جو اس نے کہی وہ بات میں نے مان لی
مجھ سے اب ناراض وہ بے بات کیوں ہے