راہ دل سے میں تیرے نقش مٹا بھی نہ سکوں
اتنا مشکل تو نہیں تجھکو بھلا بھی نہ سکوں
مجھکو وحشت ہی سہی پھر بھی یہ کیا مشکل ہے
داستان غم دل تجھکو سنا بھی نہ سکوں
بیخودی میں کبھی صحرا میں نکل جاتا ہوں
کیا غضب ہے کہ وہاں پھول کھلا بھی نہ سکوں
تو جو مل جائے اگر خون جگر بھی دے دوں
کیسے ممکن ہے کہ میں جان لٹا بھی نہ سکوں
میں لئے پھرتا ہوں اوروں کی بلائیں سر پر
بوجھ اتنا بھی نہیں جسکو اٹھا بھی نہ سکوں
اتنا پابند ضوابط تو نہیں ہوں لیکن
پھر سے اک بار ترے شہر میں آ بھی نہ سکوں
ساقیا تو مجھے تڑپانے کی ضد چھوڑ بھی دے
جام غم سر تو نہیں ہے کہ اٹھا بھی نہ سکوں
اے نصیب غم عشاق یہ کیا ماجرا ہے
غیر کے سامنے کیوں اسکو بلا بھی نہ سکوں
تم نے دیوار بنائی جو غم دوراں کی
حد فاصل تو نہیں جس کو ہٹا بھی نہ سکوں
اے مرے شوق جنوں تم بھی تو حد کرتے ہو
تیرے کہنے پہ میں اس شہر سے جا بھی نہ سکوں
ایک آہٹ کے بھروسے پہ جیوں گا کب تک
اتنا کم ظرف نہیں غم کو چھپا بھی نہ سکوں
تاب گفتار بھی کھو جانے کا ڈر ہے 'برہم'
بات کرنے کے لیے ہونٹ ہلا بھی نہ سکوں