راہ دل سے میں تیرے نقش مٹا بھی نہ سکوں
Poet: ڈاکٹر آفتاب رانجھا By: ڈاکٹر آفتاب رانجھا, Lahoreراہ دل سے میں تیرے نقش مٹا بھی نہ سکوں
اتنا مشکل تو نہیں تجھکو بھلا بھی نہ سکوں
مجھکو وحشت ہی سہی پھر بھی یہ کیا مشکل ہے
داستان غم دل تجھکو سنا بھی نہ سکوں
بیخودی میں کبھی صحرا میں نکل جاتا ہوں
کیا غضب ہے کہ وہاں پھول کھلا بھی نہ سکوں
تو جو مل جائے اگر خون جگر بھی دے دوں
کیسے ممکن ہے کہ میں جان لٹا بھی نہ سکوں
میں لئے پھرتا ہوں اوروں کی بلائیں سر پر
بوجھ اتنا بھی نہیں جسکو اٹھا بھی نہ سکوں
اتنا پابند ضوابط تو نہیں ہوں لیکن
پھر سے اک بار ترے شہر میں آ بھی نہ سکوں
ساقیا تو مجھے تڑپانے کی ضد چھوڑ بھی دے
جام غم سر تو نہیں ہے کہ اٹھا بھی نہ سکوں
اے نصیب غم عشاق یہ کیا ماجرا ہے
غیر کے سامنے کیوں اسکو بلا بھی نہ سکوں
تم نے دیوار بنائی جو غم دوراں کی
حد فاصل تو نہیں جس کو ہٹا بھی نہ سکوں
اے مرے شوق جنوں تم بھی تو حد کرتے ہو
تیرے کہنے پہ میں اس شہر سے جا بھی نہ سکوں
ایک آہٹ کے بھروسے پہ جیوں گا کب تک
اتنا کم ظرف نہیں غم کو چھپا بھی نہ سکوں
تاب گفتار بھی کھو جانے کا ڈر ہے 'برہم'
بات کرنے کے لیے ہونٹ ہلا بھی نہ سکوں
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






