راہ چلتے ملا تھا، جدا سا لگا
شخص وہ اجنبی تھا، بھلا سا لگا
میں تو شیدا نہیں تھا کبھی حسن کا
اُسکو دیکھا تو وہ، خوش ادا سا لگا
وہ میرا کچھ نہیں تھا، تو تم ہی کہو
کِس لئے مجھ کو اپنا اپنا سا لگا
میں تو ناراض تھا صرف احباب سے
ساری دنیا ہی سے وہ خفا سا لگا
میں تو اپنے دکھوں سے پریشان تھا
مجھ کو وہ بھی مگر دِل جلا سا لگا
جس کو دیکھو پرستار اظہر جبھی
اُسکو جانا تو جیسے پِیاسا لگا