راہیں ترے وصال کی ڈھونڈوں گا کب تلک
دھکے ترے فراق میں کھاؤں گا کب تلک
خوں ہو رہا ہے میرا کلیجہ یہ سوچ کر
اعراضِ چشمِ یار میں دیکھوں گا کب تلک
آثارِ غم عیاں ہیں مرے انگ انگ سے
صد پارہٴ جگر کو چھپاؤں گا کب تلک
دل میں تمہارے پیار کا سودا لیے ہوئے
پلکوں پہ آنسوٴوں کو سجاؤں گا کب تلک
کب تک رہوں گا محوِ تماشائے انتظار
راہوں میں تیری آنکھ بچھاؤں گا کب تلک
جذبات کے وفور میں سوچا نہیں ابھی
بِن تیرے یہ گھروندہ بناؤں گا کب تلک
بے خواب میری آنکھ تو بس دے چکی جواب
یادوں کی تیری شمع جلاؤں گا کب تلک
میری یہ چشمِ نم، یہ پراگندگی گواہ
احوالِ دل خلیلی# چھپاؤں گا کب تلک