یہ عشق بھی کیا ہے اِسے اپنائے کوئی اور
چاہوں میں کِسی اور کو یاد آئے کوئی اور
اُس شخص کی محفل کبھی بَرپا ہو تو دیکھو
ہو ذِکر کسی اور کا شرمائے کوئی اور
اے ضبطِ اناَ مُجھ کو یہ منظر نہ دِکھانا
دامن ہو کِسی اور کا پھیلائے کوئی اور
سَر نوکِ سناں پر ہے بدن رزقِ زمیں ہے
مقتل سے عَلم میرا اُٹھا لائے کوئی اور
مُجھ پر نہیں کُھلتا میرا سوچا ہوا اِک لفظ
مطلب مُجھے اس لفظ کا سمجھائے کوئی اور