جب تصور میں کوئی بزم سجائی میں نے
خاص مہمان تیری ذات بنائی میں نے
ایک پل بھی کبھی دل سے نہ بھلایا تجھ کو
عشق میں تیرے یونہی عمر گنوائی میں نے
تو نے جان مانگی ہے لے وہ بھی نچھاور تجھ پہ
حکم جلاد کو دے گردن ہے جھکائی میں نے
تجھ کو پھولوں سے گلہ خار بھری شاخ کا تھا
تیری تو راہ میں پلکیں تھیں بچھائی میں نے
تیرے دامن پہ کوئی حرفو الزام بھی آنے نہ دیا
اپنے سر لے لی ہے ذلت و تباہی میں نے
تو نے ہر نقش میرا پیروں سے روندا لیکن
تیری تصویر نہ اس دل سے مٹائی میں نے
بس تیرے خیالوں کی دنیا میں ہوں کھویا رہتا
اسطرح رسم وفاء تجھ سے نبھائی میں نے
میری معصوم محبت کو تو رسواء تو نہ کر
تیری عیار شرارت ہے چھپائی میں نے
سوختہ جان تو پہلے ہی تھا اشہر لیکن
عشق کی آگ میں اب روح ہے جلائی میں نے