کچھ ناں کچھ ہم بچا کے آئے ہیں
ساری رسمیں نبھا کے آئے ہیں
سانس بھی لوں تو آنکھ کھلتی ہے
اپنے زخموں کو جگا کے آئے ہیں
کیسے دیکھوں میں خوابوں میں تجھ کو
تیری قربت کو بھلا کے آئے ہیں
روک سکتا تھا کون لہو کا سیلاب
اجڑی بستی کو بسا کے آئے ہیں
کیا کریں گے سلوک وہ ہم سے
سب کے آئینے چھپا کے آئے ہیں
ناں جائیں گے لوٹ کر انکی طرف
ساری کشتیاں جلا کے آئے ہیں