ہتھیلی پر دِیا ہے محوِ رقصاں ہوں ہواؤں میں
مجھے پروان چڑھنا ہے قیامت کی فضاؤں میں
چمکتے چاند نے مجھ کو بتاہیں راز باتیں
بہت ٹوٹے ہوئے تارے ملے ہیں کہکشاؤں میں
شکستہ حال ہوں لیکن تیری نظرِ عنایت سے
مہک اٹھتی ہوں مثلِ گل محبت کی اداؤں میں
کبھی تم سے جدا ہو کر سکونِ دل نہیں پایا
عجب تسکین سی ہم کو ملی لیکن سزاؤں میں
بنانا ہے تمہیں گر آشیاں کیوں سوچتے ہو
کئی طوفان ہیں مچلے ہوئے ظالم گھٹاؤں میں