وہ مجھے خواب میں ہر روز بلا سکتے ہیں
رنجشیں اور زمانے سے بڑھا سکتے ہیں
زندگی پیار کی خوشبو سے سجا سکتے ہیں
اپنا یہ گھر بھی تو جنت سا بنا سکتے ہیں
زخم پروائی میں رہتے ہیں اگر سبز تو کیا
درد کے ساتھ بھی یہ زیست بتا سکتے ہیں
وہ جو رکھتے تھے مرا روز تماشا جگ میں
ہم بھی قدموں میں انہیں آج جھکا سکتے ہیں
جب امیروں سے نہیں بنتی کہانی اپنی
ہم فقیروں سے تو ہاتھ اپنا ملا سکتے ہیں
درد کے خون میں انگلی تو ڈبو کر دیکھیں
پیار کے ہاتھ پہ مہندی جو لگا سکتے ہیں
آؤ اک بار مرے ہاتھ پہ بوسہ کر دو
وشمہ ہم تیری جدائی بھی بھلا سکتے ہیں