روز بہلاتا ہوں میں اس کو منانے کے لئے
یوں تماشہ نہ بنے سارے زمانے کے لئے
شام در شام اسے ڈھونڈ کے تھک جاتا ہوں
دل نکلتا ہے کہیں آنکھ ملانے کے لئے
میں نے کل رات ترے گھر سے اجازت لے کر
اس کو دہلیز پہ چھوڑا تھا سلانے کے لئے
یوں تو یہ ہجر کا عادی ہے، مگر مجرم ہے
گھس ہی جاتا ہے کہیں ہاتھ دکھانے کے لئے