رونے والوں کو کسی طور ہنسا دیتا ہوں
اس طرح اپنے غموں کو میں چھپا دیتا ہوں
کوئ پوچھے بھی اگر مجھ سے اداسی کا سبب
مسکراتے ہوۓ باتوں میں اڑا دیتا ہوں
اب اگر کوئ بھی خط آۓ محبت کا مجھے
اس کو پڑھتا بھی نہیں اور جلا دیتا ہوں
مجھ سے دیکھا نہیں جاتا ہے کسی کا بھی ملن
شاخ پر بیٹھے پرندے بھی اڑا دیتا ہوں
میں نے بھی سیکھ لیا رنگ زمانے والا
جو بچھڑ جائے اسے میں بھی بھلا دیتا ہوں
کوئ گر مجھ سے محبت کا پتہ پوچھے تو
میں فقط نوکِ سناں اس کو دکھا دیتا ہوں
مجھ سے بڑھ کر کوئ پاگل نہیں ہو گا باقرؔ
بےوفا کیلۓ خود کو میں سزا دیتا ہوں