رہتا جینا پل دو پل کا
بس نہیں اپنا بھی چلتا
ہم کھلونے کے موافق
گھومتے ہیں ارد کیسا
چابی جتنی ہی بھری ہو
دوڑ اتنی ہی لے سکتا
کیا پتہ کب موت آئے
کس سفر پر چل بھی پڑتا
واپسی کی راہ نہ کچھ
در عمل کا بند کرتا
مال کے حقدار وارث
جو بچا تقسیم ہوتا
گر غریبوں میں ہو صدقہ
قبر میں پھر اجر ملتا
آس ناصر چھوڑ دے کیوں
جب تلک سانس بھی رکھتا