رہِ الفت کے سفیروں میں مرا ذکر تو ہے
تری راہوں کے فقیروں میں مرا ذکر تو ہے
کب یہ حالات لے جاتے ہیں ترے در پہ مجھے
ترے ہاتھوں کی لکیروں میں مرا ذکر تو ہے
کیا ہوا آج میں یاقوت یا مرجان نہیں
پھر بھی الماس سے ہیروں میں مرا ذکر تو ہے
ارو اب ہجر میں رہنے کی سزا مجھ کو نہ دے
زندگی! تیرے اسیروں میں مرا ذکر تو ہے
جس کے آنگن میں جھکیں پیار کی کرنیں وشمہ
ایسی درگاہ کے پیروں میں مرا ذکر تو ہے