زبان سے درد بتانا بھی مشکل ہے۔
دل کا زخم دِکانا بھی مشکل ہے۔
کتنی بھیڑ ہے ترے شہر میں یارا
چُھپ کے آنسو بہانا بھی مشکل ہے۔
دُور تجھ سے میں رہ نہیں سکتا
پاس ترے اب آنا بھی مشکل ہے۔
جن کی خطا ہے میں یاد نہیں کرنا چاہتا
دل سے اُنھیں بھلانا بھی مشکل ہے۔
اِک پل جدائی میں سہہ نہیں سکتا
یہ راز اُنھیں بتانا بھی مشکل ہے۔
بے وفائی ہو جن کی بیدائشی بیماری
وفا اُن کو سکھانا بھی مشکل ہے۔
دوست کہتے ہیں وفا پے لکھا کرو کچھ
جبکہ بے وفائی کو بھلانا بھی مشکل ہے۔
شعروشاعری سے بھی دل اُکتا چکا اب
اِس لٹ کو مٹانا بھی مشکل ہے۔
نہال روباہی اُس جیسی آئی ہی نہیں
اپنی سادگی کو چُھپانا بھی مشکل ہے۔