زلف محبوب کا کیا خوب نظارہ ہو گا
ڈوبتے وقت ہمیں کچھ تو سہارا ہو گا
وہ تجھے بھول گیا بھولنے دے غم نہ کر
تیری قسمت میں کوئی اور ستارہ ہو گا
رات کی نیند گئی دن کا سکوں کھو بیٹھے
بیٹھے ہیں تاک میں کب ہم کو اشارہ ہو گا
دِل کا سودا ہے منافع نہیں تکتے اِس میں
گھاٹے میں ہم رہیں کب ان کو گوارا ہو گا
سائل اب لوٹ چلو بیٹھنے سے کیا حاصل
شام ڈھلنے سے ذرا پہلے پکارا ھو گا