زمانے بھر میں رسوائی ہوئی ہے
خبر یہ دیر سے آئی ہوئی ہے
تمہارے اور میرے درمیاں کچھ
کسی دشمن نے پھیلائی ہوئی ہے
تصور میں نہیں تھی بے وفائی
مری تو گُنگ گویائی ہوئی ہے
تماشا سا بنایا پیار تُم نے
یہاں خلقت تماشائی ہوئی ہے
عدو کے سامنے کیونکر لتاڑا
ہماری یوں پذیرائی ہوئی ہے؟
نشاں چوکھٹ پہ دیکھو ثبت ہوں گے
کہو کیسی جبیں سائی ہوئی ہے؟
مسیحا تھے تو گھاو کیوں لگائے
کہاں کی یہ مسیحائی ہوئی ہے
چلو اس دوستی نے کچھ دیا تو
غموں سے بھی شناسائی ہوئی ہے
کہو ہو بوجھ ہے اظہر تعلق
مگر زنجیر پہنائی ہوئی ہے