اُلجھتا میں نہیں، اور اُلجھانے سے ڈرتا ہوں
سچ پوچھو، اور بولوں تو، زمانے سے ڈرتا ہوں
کسی کی جھیل سی آنکھوں میں، میں، پہلے سے ڈُوباہوں
تمھاری نظر سے، نظروں کو ملانے سے ڈرتا ہوں
تمھاری زُلفوں کے ڈسنے سے، زہر سینے میں اُترا ہے
عشق ہوتا مگر، عشق میں، مر جانے سے ڈرتا ہوں
ہوں میں انسان، فرشتوں سی صفت، مجھ میں کہاں ہوتی
اُسے میں پوجھتا ہوں، کافر، کہلانے سے ڈرتا ہوں