ہوش مندوں کو بھی دیوانہ بنا دیتی ہے
بے خودی بزم میں سو رنگ جما دیتی ہے
عدل و انصاف نہیں حشر کے دن پہ موقوف
زندگی خود بھی , گناہوں کی سزا دیتی ہے
وقت کی بات ہے کچھ اور ، وگرنہ اکثر
صلح کی بات بھی فتنوں کو ہوا دیتی ہے
سعی ء پہیم سے ہی ملتے ہیں مقاماتِ بلند
جستجو عزم کو اک جوش نیا دیتی ہے
حسن ِ تنویر کا ہوتا ہے اندھیروں میں نکھار
پارسائی بھی گناہوں میں مزا دیتی ہے
ہجر کی رات جب آجاتی ہے پہلو میں مرے
آستینوں پہ لہو میرا سجا دیتی ہے
اپنے ہاتھوں میں لئے پھرتے ہیں بغاوت کا علم
رہبری ہم کو بہر گام ، دغا دیتی ہے
تونے اک دن بھی پکارا نہیں ہم کو مفتی
ہر کلی کِھل کے بہاروں کو صدا دیتی ہے