خانہ بدوش زندگی میں بندگی ،نہ تم
باغوں میں اب گلاب نہ ، چمپا ، کلی ، نہ تم
پھیلا ہوا ہے دھوپ کا عفریت ہر طرف
گلشن میں کوئی پیڑ ، نہ ہی زندگی ، نہ تم
آنکھوں میں تیرے پیار کو پڑھنا عذاب ہے
کمرے میں کوئی آئینہ ہے ،روشنی ، نہ تم
کیوں عشق کے مزار کی دنیا اجڑ گئی
یاں دیکھنے کو پیار نہ ہی عاشقی ، نہ تم
وشمہ میں آج زندگی کو ہار جاؤں گی
پہلے سے اب نہ دن رہے ،یہ دل لگی ،نہ تم