زندگی کو یوں بِتانا چاہیۓ
ہر قدم پر مُسکرانہ چاہیۓ
ہر کسی کے لب پہ ہی تعریف ہو
کام ایسا کر دکھانا چاہیۓ
ہاں پرندے بھی تو ہیں خلقِ خدا
اُن کو بھی تو آشیانہ چاہیۓ
چاہے دِلشِکنی کِسی کی بھی ہو پر
بات کرنی منصفانہ چاہیۓ
وہ مری عادات سے واقف نہیں
کُچھ نہ کُچھ اُس کو بتانا چاہیۓ
قدر نا ہو دِل کے جذبوں کی جہاں
شہر ایسا چھوڑ جانا چاہیۓ
گر فقیری ہے تجھے مطلوب تو
میکدے میں آنا جانا چاہیۓ
میں ہوں شاعر اور لکھنی ہے غزل
مُجھ کو موسم عاشقانہ چاہیۓ
روٹھ جو محبوب باقرؔ جاۓ تو
اُس کو جلدی سے منانا چاہیۓ