اپنے احساس کے تپتے ہوئے انگاروں پر
تیری یادوں کی برستی ہوئی شبنم کے تلے
زندگی اے مری محبوب ! گزر جائے گی
ایک موہوم سی امید رفاقت بھی نہیں
مجھ کو معلوم ہے اب
تو نہیں آئے گی یہاں
تیری خوشبو سے معطر ہیں سبھی پھول ترے
پیار سے چوم کے ان پھولوں کو میں دیر تلک
کھویا رہتا ہوں اداسی بھرے ویرانوں میں
تو نہیں میرے مقدر میں
تیرا غم ہی سہی
زندگی اے مری محبوب ! گزر جائے گی