برگ گل بن کے ہی بغمل نہیں ہونے دیتے
تیری نظروں سے بھی اوجھل نہیں ہونے دیتے
جب بھی خطرہ ہوا لاحق تر ی سیماؤں کا
باندھ کر سر پہ کفن جل نہیں ہونے دیتے
روشنی دے نہ سکے چھینے غریبوں کے د ئے
بننا تھا نجم وہ اکمل نہیں ہونے دیتے
بستیاں چھان لیں انسان نہ پائے ہم نے
وفا کی راہ میں بے کل نہیں ہونے دیتے
گزرے کوچے سے ترے آج جو انجانے میں
وہ کسی اور کا پاگل نہیں ہونے دیتے
ہر قدم راہ سخن پر ملے ‘ استاد‘ ہمیں
ان سے کچھ سیکھتے وہ حل نہیں ہونے دیتے
تھا زمانے سے چھپانا ہمیں چہرہ وشمہ
زیب تن کر کے وہ جل تھل نہیں ہونے دیتے