ساحل پہ کسی کی حسرت کا ٹوٹا ہوا تارا ڈوب گیا
تنہائی کی وخشت دل میں لیئے اک ہجر کا مارا ڈوب گیا
پانی میں تمھارے چہرے کو کچھ دیر تو دیکھا آنکھوں نے
افسوس مچلتی لہروں سے پھر عکس تمھارا ڈوب گیا
دریا ہو کہ ساحل ہر جانب بے رحم اجل کا قبضہ تھا
جب موجوں کا کچھ بس نہ چلا دریا کا کنارا ڈوب گیا
کچھ ایسے تھا اکثر بھٹکایا ظلمت کے عذابوں نے ہم کو
ارمان ضیاء کا دل میں لیے ہر خواب ہمارا ڈوب گیا
یوں بحرِ الم کی وادی میں احساس کا سورج ڈوبا ہے
دھر آئی ہے وحشت آنکھوں میں پر کیف نظارا ڈوب گیا
ْپھر بزمِ جنوں میں یہ کس نے مرے نام سے دی آواز مجھے
پھر ایک صدا کے پیچھے کیوں ہر سوچ کا دھارا ڈوب گیا
واقف ہی نہیں ہم نغموں سے یہ بات تو واضح ہوہی گئی
جب جب بھی تمھارا ذکر ہوا سر تال ہمارا ڈوب گیا
جب وقت کا دریا بپھرا اور جیون کشتی میں چھید
تب سارے تنکے دور ہوئے ہر ایک سہارا ڈوب گیا
جب مرگ کا سایہ پھیل رہا تھا دور شفق کی صورت میں
پھر آس کا سورج پانی میں افسوس ہمارا ڈوب گیا
پھر لطف و کرم کا پہرا ہے یوں باب وفا پہ اب کے عمیر
پھر تشنہ لبی کا بوجھ لئے اک پیاس کا مارا ڈوب گیا