ساحل پہ کسی کی حسرت کا ٹوٹا ہوا تارا ڈوب گیا
Poet: عمیر قریشی By: عمیر قریشی, اسلام آبادساحل پہ کسی کی حسرت کا ٹوٹا ہوا تارا ڈوب گیا
تنہائی کی وخشت دل میں لیئے اک ہجر کا مارا ڈوب گیا
پانی میں تمھارے چہرے کو کچھ دیر تو دیکھا آنکھوں نے
افسوس مچلتی لہروں سے پھر عکس تمھارا ڈوب گیا
دریا ہو کہ ساحل ہر جانب بے رحم اجل کا قبضہ تھا
جب موجوں کا کچھ بس نہ چلا دریا کا کنارا ڈوب گیا
کچھ ایسے تھا اکثر بھٹکایا ظلمت کے عذابوں نے ہم کو
ارمان ضیاء کا دل میں لیے ہر خواب ہمارا ڈوب گیا
یوں بحرِ الم کی وادی میں احساس کا سورج ڈوبا ہے
دھر آئی ہے وحشت آنکھوں میں پر کیف نظارا ڈوب گیا
ْپھر بزمِ جنوں میں یہ کس نے مرے نام سے دی آواز مجھے
پھر ایک صدا کے پیچھے کیوں ہر سوچ کا دھارا ڈوب گیا
واقف ہی نہیں ہم نغموں سے یہ بات تو واضح ہوہی گئی
جب جب بھی تمھارا ذکر ہوا سر تال ہمارا ڈوب گیا
جب وقت کا دریا بپھرا اور جیون کشتی میں چھید
تب سارے تنکے دور ہوئے ہر ایک سہارا ڈوب گیا
جب مرگ کا سایہ پھیل رہا تھا دور شفق کی صورت میں
پھر آس کا سورج پانی میں افسوس ہمارا ڈوب گیا
پھر لطف و کرم کا پہرا ہے یوں باب وفا پہ اب کے عمیر
پھر تشنہ لبی کا بوجھ لئے اک پیاس کا مارا ڈوب گیا
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






