ساعت کی بات تھی کہاں قہر ہوئا کہاں مہر ہوئی
پھر بھی کوئی تو لوٹتا یہاں شام کے بیٹھے پر سحر ہوئی
فضاؤں سے سرگوشیاں لیکر وہ تھکا مسافر سوگیا
اُس نیند کو بھی جاگ نہ جانے کس پہر ہوئی
میری پلک میں ٹھہرا پانی خم کھانے لگا ہے
غم کے کنکر نے پوچھا کہ کس دامن میں لہر ہوئی
لب خاموشاں چشم نے خون رویا تھا کبھی
تجھ پہ لکھی ہر تحریر بھی جیسے بحروافر ہوئی
خودی سے اختلاف بھی کس کو گوارہ لگیں گے
اِسی خودسری سے کس کس کی زندگی زہر ہوئی
جس نگاہ سے دل میں جنبش جو اٹھی سنتوشؔ
اس کے بعد اپنی حالت پہ فکر ہی فکر ہوئی