ساعت کی بات تھی کہاں قہر ہوئا کہاں مہر ہوئی
Poet: Santosh Gomani By: Santosh Gomani, Mithiساعت کی بات تھی کہاں قہر ہوئا کہاں مہر ہوئی
پھر بھی کوئی تو لوٹتا یہاں شام کے بیٹھے پر سحر ہوئی
فضاؤں سے سرگوشیاں لیکر وہ تھکا مسافر سوگیا
اُس نیند کو بھی جاگ نہ جانے کس پہر ہوئی
میری پلک میں ٹھہرا پانی خم کھانے لگا ہے
غم کے کنکر نے پوچھا کہ کس دامن میں لہر ہوئی
لب خاموشاں چشم نے خون رویا تھا کبھی
تجھ پہ لکھی ہر تحریر بھی جیسے بحروافر ہوئی
خودی سے اختلاف بھی کس کو گوارہ لگیں گے
اِسی خودسری سے کس کس کی زندگی زہر ہوئی
جس نگاہ سے دل میں جنبش جو اٹھی سنتوشؔ
اس کے بعد اپنی حالت پہ فکر ہی فکر ہوئی
More Love / Romantic Poetry






