ساقیا آئے ہیں مے خانے میں
لطف پینے میں نہ پیمانے میں
ساتھ چلنے کا وعدہ کرکے وہ
چھوڑا ویران آستانے میں
پھر وہ روتی بھی اور کہتی رہی
یہ خطا ہوگئی انجانے میں
وہ جو معصوم بھی ہے قاتل بھی
اس نے مارا ہمیں بہانے میں
میں نہ پہچان پایا خود کو بھی
دادؔ پہچا جو شیشہ خانے میں