سامنے پا کر بھی ان کو نظارہ نہیں ملا
ساحل پہ پہنچ کر بھی کنارہ نہیں ملا
دیکھتے تو ریتے ہیں نیچی نظر سے وہ
ہنوز کوئی بھی آنکھ کا اشارہ نہیں ملا
ہے شرم دامن گیر یا ڈرتے ہیں وہ عدو سے
کیوں بات ان کو کرنے کا چارہ نہیں ملا
رہ جاتے نہ بچھڑ کر کبھی قافلے سے ہم
صد حیف ہمسفر وہ ہمارا نہیں ملا
دیکھی تھی اک جھلک ہی چہرے کی ان کے زریں
اس جیسا اب تلک کوئی پیارا نہیں ملا
( میری سب سے پہلی غزل جب میں آٹھویں کلاس میں پڑھتا تھا ۔ بلا ترمیم پیش خدمت ہے اگر ناگوار خاطر گزرے تو تمام احباب سے پیشگی معزرت چاہتا ہوں )