ساون نے جاتے جاتے کہیوں کے گھر جلا دیئے
ساون نے جاتے جاتے غریبوں کے گھر گِرا دیئ
امیروں کے محمل تو جگتے رہے شام وسحر
غریبوں کے مگر دیئے اِس ساون نے بُجھا دیئے
غریبوں کے گھر میں چلا گیا یہ بدمعاش ساون
اِس ساون نے غریب گھر سے ہی بھگا دیئے
ساگروں کی پیاس یہ ساون بُجھاتے بُجھاتے
سفینے کہی ملاحوں کے اِس نے ڈُبا دیئے
صحرائوں کی پیاس نہ بُجھا سکا یہ ساون مگر
ہار میں پاگل ساون نے قہر یہاں مچا دیئے
امیروں کے پکے گھروں کو نہ جب کر سکا یہ
کچے مکانوں کو فواروں کے نمونے بنا دیئے
نہال ساون کبھی محبت کا پیغام لیتا تھا
اِس بار تو ظالم نے قِصے اور ہی لکھا دیئے