شام ہوتے ہی سلسلہ چل پڑا بہاروں کا
بے رنگ موسموں میں کچھ عجیب بہاروں کا
نہ پوچھ وصال یار میں ہم پہ کیا گزری
تعلق تو توڑ گئی دنیا اب کیا جوڑ مجھ سے نظاروں کا
اب اتنی سکت ہی کہاں کہ خود سنبھل جاؤں
میں اجڑ گیا ہوں یاروں مجھے مطلب ہے سہاروں کا
مطمئن ہے جو ضمیر تو کیا ملال زندگی پہ
ساری بات ہے ضمیر کی کیا ذکر اشاروں کا
دل کشادہ ہے اپنا تاریکی میں ڈووبا تو نہیں
شکست سے دوچار ہے مگر اثر پھیلتا ہے پکاروں کا
اگرچہ زندگی کو بدل چلے ہو تم ساگر
مگر یہ گہاں تک ممکن ہے کہ ذکر نہ کرو بہاروں کا