سلوک اس نے محبت میں عجب مجھ سے روا رکھا
ہمیشہ میرے اپنے درمیاں اِک فاصلہ رکھا
تمہارے پاس آتے ہی جلا د یں کشتیاں ساری
کہ ہم نے لوٹ جانے کا نہ کویٔ راستہ رکھا
تمہارے پیار میں ہم اور کتنی در گذر کرتے ؟
تمہاری ہر جفا کا نام ہم نے اِک ادا رکھا
تمہارے بن رہے سونے ہمارے بام و در کتنے
نہ آۓ تم مگر ہم نے تو دروازہ کھلا رکھا
توقع اور سے کیوں ہو ہمیں حاجت روایٔ کی ؟
خدا کے سامنے پھیلا کے جب دستِ دعا رکھا
نہ تھا کچھ ربط ہی شاید ترے دِل کا ، مرے دِل سے
نہ لوٹے تم نہ تم نے ہم سے کویٔ رابطہ رکھا
ہوا کا دیکھنا مقصود مجھ کو ظرف ہے عذراؔ
ہوا کے دوش پر میں نے جلا کے اِک دیا رکھا